پراسٹیٹ کینسر

انسانی جسم بذات خود ایک ایسا الارم ہے جو اپنے اندر پیدا ہونیوالے مرض یا کسی توڑ پھوڑ کی نشاندہی کرتا ہے اور اسکی روک تھام کیلئے انسان کو آگاہ کرتا ہے۔ یوں تو قدرت نے کئی بیماریوں کا علاج انسانی جسم میں ہی رکھا ہے‘ مثلاً عام نزلہ زکام وغیرہ کا اگر علاج نہ بھی کیا جائے تو وہ چند روز میں خود بخود ٹھیک ہو جاتا ہے‘ اگر معاملہ دوچار روز سے بڑھ جائے تو فوری علاج شروع کر دینا چاہیے۔

پراسٹیٹ گلینڈز ایک ایسا مرض ہے جس کا تعلق عمر کے ساتھ ہوتاہے‘ جیسے جیسے عمر بڑھتی ہے‘ یہ گلینڈ بھی ساتھ نشوونما پا کر بڑھتا جاتا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ 50 برس کی عمر کے بعد ہی مرد کا پراسٹیٹ گلینڈ بڑھنے پر اسے پیشاب کی تکلیف کا سامنا کرنا پڑے۔ پندرہ سے 20 فیصد لوگ ایسے ہیں‘ جنہیں پراسٹیٹ غدود بڑھنے کی وجہ سے لازمی علاج کرانا پڑتا ہے جبکہ 80 سے 85 فیصد لوگوں کو اس غدود کے علاج کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ بعض اوقات یہ غدود خودبخود ختم ہو جاتے ہیں‘ جبکہ بعض اوقات دوائیوں کے ذریعے ان کا علاج کرکے ان کا سدباب کیا جاتا ہے۔ پراسٹیٹ گلینڈ کی روک تھام کا کوئی مو ¿ثر طریقہ موجود نہیں ہے‘ کیونکہ یہ ایک ہارمون کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ لہٰذا اس بیماری کے شروع ہی میں اپنے ڈاکٹر سے رجوع کرلیا جائے تو برے نتائج سے بچا جا سکتا ہے۔ بعض مریضوں میں پراسٹیٹ انلارجمنٹ کا نتیجہ کیسر کی صورت میں نکلتا ہے۔ 60 سال یا اس سے زائد کی عمر کے لوگوں میں جب یہ مرض کافی بڑھ جاتا ہے تو انہیں کمردرد کی شکایت شروع ہو جاتی ہے‘ ڈاکٹر کے معائنہ کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ مریض کو پراسٹیٹ کینسر ہے جو اسکی ہڈی تک پہنچ چکا ہے جس کی وجہ سے اسے کمردرد کی شکایت ہے۔ 50 سے 60 فیصد لوگوں میں کمردرد کی علامت سامنے آنے کی صورت میں ہی پراسٹیٹ کینسر کا پتہ چلتا ہے۔
دوسرے کینسر کی طرح پراسٹیٹ کینسر کی ابتدائی سطح پر بہت کم علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ بعض مریض اس بیماری کی پرواہ نہیں کرتے اور اس بیماری کو اپنے اندر لئے پھرتے ہیں‘ تکلیف بڑھنے پر وہ جب ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں تو کافی دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ پراسٹیٹ کینسر کا ایک میڈیکل ٹیسٹ لیا جاتا ہے جو PSA کہلاتا ہے‘ یہ ٹیسٹ پراسٹیٹ کینسر کی ابتدائی سطح پر تشخیص کیلئے بہت کامیاب ٹیسٹ ہے‘ اگر 60 سال یا اس سے زائد عمر کے مرد حضرات کو پیشاب کے حوالے سے کوئی مسئلہ درپیش ہو تو اسے دیگر ٹیسٹوں کے ساتھ PSA ٹیسٹ بھی کرالینا چاہیے تاکہ نتائج کی روشنی میں علاج تجویز کیا جا سکے۔پہلے بھی بتایا جا چکا ہے کہ پراسٹیٹ کینسر کا مسئلہ دراصل ایک ہارمون کے بڑھنے کی وجہ سے ہوتا ہے‘ جسے Testosterone یا نرہامون کہا جاتا ہے یہ ہارمون مردانہ جنسی نشوونما اور بالیدگی کا ذمہ دار ہوتا ہے اگر یہ اپنے مخصوص حجم سے بڑھنا شروع ہو جائے تو مختلف پیچیدگیاں جنم لیتی ہیں جن میں پیشاب میں رکاوٹ اور کمردرد وغیرہ عام علامات ہیں۔ اس غدود کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا کیونکہ انسانی جسم میں یہ بالیدگی کا ذمہ دار ہوتا ہے لہٰذا ادویات کے ذریعے اسے بڑھنے سے روکا جا سکتا ہے جبکہ ایلوپیتھک طریقہ علاج میں اس غدود کو اپریشن کرکے خصیوں سے نکال دیا جاتا ہ۔ دوسرے کینسر کی طرح پراسٹیٹ کا کینسر بھی خاموشی سے پھیلتا ہے لیکن اس کینسر کا مریض دوسرے کینسر کی نسبت زیادہ عرصہ زندہ رہتا ہے

Comments

Popular posts from this blog

موبائل کو چھوڑو بیوی سے دل لگاؤ _______!!

Ribosomes